مندرجات کا رخ کریں

ابن الفوطی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابن الفوطی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: عبد الرزاق بن أحمد بن محمد الصابوني ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 25 جون 1244ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 جنوری 1323ء (79 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش بغداد
مراغہ
تبریز   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ
ایل خانی سلطنت (1256–)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد نصیر الدین طوسی ،  ابن خراط دوالیبی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مورخ ،  ماہر فلکیات ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آجر رصدگاہ مراغہ ،  مدرسہ مستنصریہ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابن الفوطی یا ابن الصابونی (پیدائش: 25 جون 1244ء– وفات: 12 جنوری 1323ء) عراقی مسلمان محدث، فلسفی، ماہر فلکیات اور مؤرخ تھے۔اُن کی وجہ شہرت اُن کی تصنیف مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب سے ہے۔

نام، لقب اور کنیت

ابن الفوطی کا نام عبد الرزاق بن احمد بن محمد الحنبلی ہے۔ کنیت ابوالفضل اور لقب کمال الدین، ابن الفُوَطِی اور ابن الصابونی ہے۔ اپنے معاصرین میں کمال الدین ابن الصابونی کے نام سے مشہور تھے۔ ابن الفوطی اپنے نانا موفق الدین عبد القاہر البغدادی الحنبلی کی نسبت سے الفُوَطی کہلاتے تھے (جو فُوَط یعنی دھاری دار کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جو سندھ سے بغداد پہنچتا تھا)۔ ابن الفوطی کے نانا موفق الدین 656ھ/ 1258ء میں سقوط بغداد کے سانحہ میں تاتاریوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔

نسب

ابن الفوطی کا نسب یوں ہے کہ: عبد الرزاق بن احمد بن محمد بن احمد بن عمر ابن ابی المعالی محمد بن محمود بن احمد بن ابی المعالی المفضل بن عبد اللہ بن معن بن زائدہ الشیبانی۔[1][2] ابن الفوطی کا خاندان بغداد کے حنبلی خاندانوں میں شمار کیا جاتا تھا جو معن بن زائدہ الشیبانی (جو ایک امیر کبیر سردار تھے) کی نسل سے تھا۔ یہ خاندان مرو سے تعلق رکھتا تھا۔

پیدائش

ابن الفوطی بروز ہفتہ 17 محرم الحرام 642ھ/ 25 جون 1244ء کو دار الخلافہ بغداد کے محلہ الخاتونیہ کے علاقہ درب القواس میں بغداد کے آخری عباسی خلیفہ المستعصم باللہ کے عہدِ حکومت میں پیدا ہوئے۔[3]

تحصیل علم

بچپن میں قرآن حفظ کیا اور امام محی الدین یوسف بن ابی الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی (متوفی 1258ء) سے اور اُن کے طبقے کے دیگر مشائخ سے مزید علم حاصل کیا۔ سقوط بغداد 1258ء میں ابن الفوطی کی عمر 14 سال تھی، اِس سانحے میں ابن الفوطی کو بھی گرفتار کر لیا گیا لیکن جلد ہی رہا کر دیا گیا۔[1] قطب الدین عبدالقادر بن حمزہ الاھری الحکیم کا بیان ہے کہ: "میں نے اُنہیں (یعنی ابن الفوطی کو) سنہ 657ھ میں تاتاریوں کی قید میں دیکھا تھا۔[4] 660ھ/ 1262ء میں خواجہ نصیر الدین طوسی (متوفی 26 جون 1274ء) نے ابن الفوطی کو اپنے سایہ شفقت میں لے لیا اور اپنے پاس مراغہ بلوا لیا جہاں ابن الفوطی نے منطق، فلسفہ، علم نجوم اور دیگر علومِ عقلیہ کی تعلیم حاصل کی۔[5] مراغہ میں خواجہ نصیر الدین طوسی کے علاوہ مبارک بن المستعصم باللہ (متوفی 666ھ/1267ء) سے بھی تحصیل علم کیا۔ ابن الفوطی کو عربی اور فارسی میں شعرگوئی کا کمالِ فن بھی حاصل تھا۔ خواجہ نصیر الدین طوسی سے علم نجوم حاصل کیا اور علم نجوم اور علم ہیئت میں اِس قدر مہارت پیدا کرلی کہ خود خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب ایلخانیہ مرتب کرتے وقت ابن الفوطی سے مشورہ کیا تھا۔

اسفار

ابن الفوطی کو طلبِ علم کے واسطے دور دراز کے سفر اختیار نہیں کرنا پڑے، البتہ اُن کی اپنی تصانیف میں سیاحتِ علم کے اشارے ملتے ہیں جیسے کہ 681ھ/1282ء میں وہ حلہ اور کوفہ میں تھے جبکہ 700ھ/ 1301ء میں سلماس اور 704ھ/ 1305ء میں وہ ہمدان میں موجود تھے۔ 705ھ/1306ء میں وہ اران پہنچے اور 706ھ/1307ء میں تبریز پہنچے۔ اِن اسفار کا قصد غالباً تاریخی معلومات فراہم کرنے کے لیے تھے۔1304ء اور 1305ء کے وسطی زمانے میں وہ سلطنت ایل خانی کے حکمران محمد خدابندہ اولجایتو کے دربار سے وابستہ رہے اور تین سال تک وہ سلطنت ایل خانی کے مقبوضات میں سرگرداں رہے۔[6] 710ھ/1310ء میں وہ ایل خانی دارالحکومت سلطانیہ میں مقیم تھے۔[7] 712ھ/1312ء میں اُن کے بغداد میں موجود ہونے کا پتا چلتا ہے۔[8]

بحیثیت مہتمم و خازن کتب خانہ

669ھ/ 1271ء میں ابن الفوطی خواجہ نصیر الدین طوسی کے خزانۃ الرصد (یعنی رصدگاہ مراغہ) کے کتب خانے کے خازن و مہتمم بنادیے گئے۔ اِس کتب خانے میں تقریباً چار لاکھ سے زائد کتب موجود تھیں جن سے ابن الفوطی کو استفادہ ہوا۔ ایل خانی حکمران اباقا خان کے عہدِ سلطنت (1265ء - 1282ء) میں 679ھ/1280ء میں علاء الدین عطاء الملک الجوینی کی فرمائش پر مراغہ کو خیرباد کہہ کر بغداد روانہ ہو گئے جہاں وہ دوبارہ محلہ خاتونیہ میں سکونت پزیر ہوئے۔[9] بغداد میں اُنہیں مدرسہ مستنصریہ کے کتب خانے کا خازن یعنی نگران مقرر کر دیا گیا جس پر وہ اپنی وفات تک فائز رہے۔بغداد میں قیام کے دوران میں لوگوں نے اُن سے سماعِ حدیث بھی کیا۔

تصانیف و تالیفات

ابن الفوطی کی تالیفات و تصانیف کی تعداد 83 ہے لیکن اِن تمام میں سے بہت کم ہی میسر آسکی ہیں۔ اِن میں چند کتب وہ ہیں جو شائع ہوچکی ہیں۔

الحوادث الجامعۃ والتجارب النافعۃ من المائۃ السابعۃ

یہ کتاب ابن خلکان کی تصنیف وفیات الاعیان کا تکملہ ہے۔ پہلی بار بغداد سے 1351ھ (1932ء) میں شائع ہوئی۔

مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب

یہ کتاب 50 جلدوں میں مرتب کی گئی تھی لیکن اب اِس کی چالیسویں جلد جس میں حرف ع سے ق تک کے تراجم موجود ہیں، خودنوشت مخطوطہ کی شکل میں جو 717ھ/ 1317ء میں لکھا گیا تھا، دریافت ہوچکا ہے اور تہران سے 1416ھ/1996 میں 6 جلدوں کی صورت میں شائع ہوئی۔

وفات

ابن الفوطی نے 78 سال 6 ماہ 18 دن (بلحاظِ شمسی) کی عمر میں بروز بدھ 3 محرم الحرام 723ھ/ 12 جنوری 1323ء کوبغداد کے محلہ خاتونیہ میں وفات پائی اور محلہ شُونیزیہ کے قبرستان میں تدفین کی گئی۔[6]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ^ ا ب معجم مصنفات الحنابلہ: جلد 3، صفحہ 343۔ تذکرہ ابن الفوطی۔ مطبوعہ ریاض، 1422ھ۔
  2. ابن کثیر: البدایہ والنہایہ، جلد 14، صفحہ 126۔ مطبوعہ لاہور۔
  3. ابن_کثیر: البدایہ والنہایہ، جلد 14، صفحہ 126۔ مطبوعہ لاہور۔
  4. مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 18۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
  5. مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 20۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
  6. ^ ا ب انسائیکلوپیڈیا آف اسلام: جلد 3، صفحہ 769، مقالہ: ابن الفوطی۔ مطبوعہ لائڈن، 1986ء۔
  7. مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 33۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
  8. مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 34۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
  9. مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 22۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔