افراسیاب ایرانی روایات کے مطابق تورانیوں کا افسانوی بادشاہ، اوستا کی رو سے فرنگ رسین توری کومی مؤ مروہ (کیخسرو) کا ایک حریف تھا۔ جس نے کیخسرو کے باپ سیاہ درشن کو دغابازی سے قتل کر دیا تھا۔ اس نے آریاؤں کی ہون یعنی شان وشوکت حاصل کرنے کی بے سود کوشش کی اور اسے انتقاماً کیخسرو نے قتل کر دیا۔

ممکن ہو وہ تاریخی شخصیت ہو اور توری قبائل کا (جو ایرانیوں کے ہم نسل) سردار ہو اور اس نام کی پہلوی صورت فراسیاب تھی۔ اس کا سلسلہ نسب توچ (تور، تورانیوں کا جد امجد) بن فریدون تھا۔ کہا جاتا ہے افراسیاب کی ترکازیوں کی ابتدا منش چہر کے عہد حکومت ہوئی۔ یعنی اس موخرالذکر کو شکست دے کر افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ ازو (زو یا زاب) نے ایران کو اس کے تسلط سے رہائی دلائی۔ افرسیاب نے دوبارہ شان و شوکر حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جسے اس نے ساتوں کشوروں میں تلاش کیا۔ افرسیاب کی جائے سکونت (پشتوں کا زیر زیر زمین قلعہ جہان فرنگ سین لوہے سے محصور رہتا تھا) کا بہ تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ آخر میں افراسیاب کیخسرو کے ہاتھ مارا جاتا ہے۔ اس طرح آگے چل کر افسانے میں پشتوں کے زمانے کے بعد افراسیاب تورانیوں کی تمام جنگوں میں ان کا سردار بن گیا۔ وہ نہ صرف کیانیوں کے خلاف بلکہ ان کے پیش روں کی تمام جنگوں میں ان کا سردار بن گیا۔ گویا وہ منش چہر اوراُزر کا معاصر ہو گیا۔ تاہم اس کے خاتمے کا تعلق پھر بھی قطعاً کیخسرو کے ساتھ رہا۔

مسلم مصنفین نے ان قومی روایات کے متعلق اپنی معلومات غیر مذہبی کتابوں بالمخصوص خودامی نامک (شاہنامہ) سے اخذ کیں ہیں۔ ان ہاں بہت سی معلومات ملتی ہیں۔ افراسیاب منش چہر سے طبرستان میں لڑا اور ہجران میں عہد و پیمان ہو گیا۔ جس کی رو سے دریائے بلخ (آمو، جیحوں) دونوں کے درمیان میں حد فاضل اختیار پایا۔ سیاوش جس کو کیکاؤس نے افراسیاب کے خلاف فوج دے کر بھیجا تھا اس سے صلح کر لی۔ جسے کیکاؤس نے تسلیم نہیں کیا، سیاوش نے افرسیاب کے ہاں پناہ لی۔ افرسیاب نے اپنی بیٹی وسفافرید شیاوش سے بیاہ دی۔[1] پھر اسے بھی حسد کی بنا پر قتل کرڈالا۔ وسفافرید جس کے پیٹ میں کیخسرو تھا، بچ گئی اور مشہور پہلوان گیو (بی۔ داؤ) ایران لے گیا۔ پھر رستم اور توس نے سیاوش کے انتقام میں توران کی سرزمین پامال کردالی۔ کیخسرو کا عہد حکومت افراسیاب کے خلاف جنگوں سے معمور رہا۔ آخری لڑائی کے بعد افراسیاب بھاگ کر آذر بئیجان میں رپوش ہو گیا۔ لیکن کیخسرو نے اس اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ چوں کہ تورانیوں سے مراد ترک لیے جاتے ہیں۔ لہذا افرسیاب کو ترک مانا جاتا ہے۔ شاہنامہ میں اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے افغانستان و ایران میں آباد ہونے والے بہت سے ترک اسے اپنا مورث اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ ترکوں کا افرسیابی حکمران خاندان مشہور ہے۔ [2]

یہ دراصل عہد قدیم کی ان لڑائیوں کی داستانیں ہیں جب آمو دریا کے پار سے سیھتی و ترک قبائیل ایران پر حملہ آور ہوتے تھے۔ یہ قبائیل نسلی اعتبار سے ایرانیوں کے ہم نسل تھے، یہی وجہ ہے ان قبائیل کو جنہیں تورانیوں سے تعبیر کیا ہے اور انھیں افریدون کی اولاد بتایا گیا ہے۔ ایرانیوں کو ان قبائیل کے حملوں نے عاجز کر رکھا تھا۔ کسی بھی فرمانروا کے لیے ان قبائیل کے حملے کی روک تھام بہت بڑا مسئلہ بنی رہتی تھی۔ ان قبائل سے جنگوں میں کتنے بادشاہ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ ان داستانوں میں ان سب کو ترک کہا گیا ہے۔ مگر یہ سب ترک نہیں تھے۔ خورس بھی ان قبائل سے لڑتا ہوا مارا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. (الطبری، فردوسی۔ فرنگیں)
  2. (بارتولید۔ افرسیاب۔ معارف اسلامیہ)