پروٹسٹنٹ کلیسیا یا پروٹسٹنٹ مسیحیت (Protestantism) مسیحیت کا ایک بڑا فرقہ ہے۔ یہ مسیحیت کا ترقی پزیر فرقہ ہے۔ پروٹسٹنٹ کلیسیا ان مسیحی گروہان کا اتحاد ہے جو زمانہ اصلاحِ کلیسیا میں رومی کاتھولک کلیسیا کے خلاف کھڑے ہوئے۔

پس منظر

ترمیم

صلیبی جنگوں میں اور اس کے بعد مسیحیت میں مذہبی پیشواؤں کے جبر کے رد عمل کے طور پر کئی فرقوں نے جنم لیا۔ صلیبی جنگوں میں مسیحیوں کو زبردستی بھرتی کیا جاتا تھا۔ پوپ اربن دوم نے اعلان کیا کے اگر کوئی خود جنگ میں نہیں جا سکتا تو اپنی جگہ کسی دوسرے کو بھیج دے جسے سے اسے معافی نامی دیا جائے گا۔ اس معافی نامے سے نجات یقینی ہے۔ بعد ازاں پوپ لیو دہم (1475-1521) تک صورت حال یہ ہو گئی کہ گناہوں کے معافی نامے ایجنسیوں پر فروخت ہونے لگے۔ جس شخص کا جی چاہتا زنا، قتل، چوری، ڈاکہ، عصمت دری اور کتنے ہی صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کر ے اپنے لیے معافی نامہ خرید لیتا۔ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے وفات شدہ عزیزوں کے لیے بھی معافی نامے خریدے جا سکتے تھے، جس کے بعد نجات یقینی سمجھی جاتی۔ اس صورت حال سے مسیحی دنیا میں اخلاقی انحطاط پیدا ہو گیا جس کی سرپرستی مسیحی مذہبی علما کر رہے تھے۔
کلیسیا کے مظالم کے خلاف کئی لوگوں نے آوازیں بھی بلند کی۔ اُن میں مشہور پیٹر والڈو (1140-1218)، جان ٹولر (1290-1361) اور جان وائی کلف (1320-1384) ہیں۔ ان لوگوں کو بھی اگرچہ سخت سزائیں دی گئی اور کفر کے فتوے صادر کیے گئے مگر اس سارے رویے نے مارٹن لوتھر(1483-1546) کے لیے راہ ہموار کی۔

ابتدا

ترمیم

سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی قیادت میں لوگوں نے کاتھولک فرقے کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے تحریک چلائی۔ اس تحریک کو پروٹسٹنٹ اصلاحِ کلیسیا کہا جاتا ہے ۔مارٹن لوتھر ایک جرمن راہب تھا۔ مروجہ مسیحیت پر اس کی تنقید عقلی دلائل کی بنا پر تھی۔
اس کے علاوہ علمی مظالم اس طرح کیے جا رہے تھے کہ جو شخص مذہبی احکامات کی تشریح سائنس سے کرتا یا پوپ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا اسے سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

عقائد

ترمیم

پروٹسٹنٹ پاپائیت اور خدا اور انسان کے مابین کسی بھی واسطے کے خلاف ہیں، ان کا ماننا ہے کہ گرجا گھر کو انسان کو بخشنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اور نہ انسان کو راہب بننا چاہیے۔ پروٹسٹنٹ بائبل کے بعض کتابوں کو جعلی قرار دیتے ہیں ۔[1]

رومن کاتھولک مسیحیوں سے اختلافات

ترمیم

رومن کاتھولک فرقے سے اختلافات کے بعد ہی پروٹسٹنٹ وجود میں آئے تھے یہ اختلافات آج تک قائم ہیں۔ مارٹن لوتھر نے اپنے دورۂ یورپ کے بعد پوپ کی شدید مخالفت شروع کردی۔ انھوں نے معافی نامے کو باطل قرار دیا اور کلیسیا کی طرف سے ہونے والے تمام مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔31 اکتوبر 1517 کا دن نہ صرف مارٹن لوتھر بلکہ مسیحیت کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے،اس دن لوتھر نے باقاعدہ طور پر پوپ کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ جرمنی کے شہر وٹن برگ (Wittenberg)کے گرجے کی دیوار پر لاطینی زبان میں طویل عبارت لکھ کر آویزاں کردی جس میں پوپ کے معافی نامہ دینے کے اختیار پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ اس زمانے کے پوپ لیو دہم (1521-1475) تھے جو مارٹن کی اس بغاوت سے بے خبر نہیں تھے۔ انھوں نے لوتھر کو ایک فتنہ قرار دیتے ہوئے ان کے اکتالیس عقائد کو باطل قرار دیا اور عوام سے ان کی کتابیں جلادینے کی اپیل کی۔ اس سلسلے میں لوتھر کو علما کے سامنے طلب کیا گیا لیکن لوتھر اپنے خیالات پر ڈٹے رہے اور اپنے موقف سے ہٹنے پر کسی صورت راضی نہ ہوئے۔ چونکہ اب لوتھر کے حامیوں کی تعداد ہزاروں کی تھی جن میں کئی شہزادے بھی شامل تھے اس لیے انھیں سخت سزا دینا ممکن نہ تھا۔ تاہم انھیں ایک سال کے لیے قید کیا گیا۔[2]
لوتھر کی تحریک کی وجہ سے مسیحیت پروٹسٹنٹ اور کاتھولک میں تقسیم ہو گئی۔ پروٹسٹنٹ فرقہ جدید رحجان کا حامل تھا،لوتھر کا اگرچہ 1546 میں انتقال ہو گیا لیکن ان کی تحریک کا اثر ان کے بعد بھی کافی عرصہ قائم رہا۔ مسیحیت میں مذہبی اصلاحی تحریک کے حامیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ لوتھر کے بعد اس اصلاحی کام کو زونگلی، جان کالون اور جان ناکس نے آگے بڑھایا۔
ان اصلاحی تحریکوں سے یہ فائدہ ضروری ہوا تھا کہ لوگ کرپٹ مسیحی علما کے مظالم کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے اور ان سے بغاوت پر اتر آئے تھے لیکن ان تحریکوں کے اثر سے لوگ کلیسا سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ اس رجحان کو دیکھتے ہوئے کاتھولک کلیسیا کے بعض مخلصین نے یہ کوشش کی کہ چرچ میں اصلاح کی جائے۔ اسی کوشش کے لیے آسٹریا کے مقام ٹرنٹ پر 1545 اور 1552 میں کونسلز کا انعقاد ہوا۔ جس میں بنیادی ایجنڈا یہ قرار دیا گیا کہ دونوں کلیسیاؤں کے اختلافات کو ختم کیا جائے اور عوام کو دوبارہ کلیسیا سے جوڑا جائے۔ اگرچہ کلیسیاؤں میں اختلافات کوششوں کے باوجود ختم نہ ہو سکے تاہم اس کونسل میں پوپ کے اختیارات کو برقرار رکھا گیا اور پادریوں کی زندگیوں کو اخلاقی طور پر اچھی اور پاک بنانے کے لیے اصول مرتب کیے گئے۔ لیکن اصلاحی تحریکوں کے رد عمل میں اٹھنے والی اس تحریک میں دوبارہ تشدد کے عناصر نظر آنے لگے۔ کیوں کہ اس تحریک کے تحت احتساب یا انکوئزیشن کے ادارے کی تشکیل دی گئی جس کے ذمے یہ کام تھا کہ کوئی شخص پروٹسٹنٹ مسلک کا اقرار کرتا تو اسے سخت سزائیں دی جاتیں۔ اسی انتہا پسندانہ رویے کے سبب رومن کاتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان مذہبی اختلافات کی بنا پر تیس سالہ جنگ ہوئی جو 1618-1648 کے درمیان جاری رہی۔ اس میں زیادہ تر جنگیں جرمنی میں لڑی گئی جن میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ اس جنگ میں براعظم یورپ کے کئی اہم ممالک نے حصہ لیا۔ تیس سال گزرنے کے بعد یہ جنگ ویسٹ فالن معاہدہ کے ساتھ ختم ہوئی لیکن اس جنگ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان پر جنگ ختم ہونے کے بعد بھی طویل عرصے تک قابو نہ پایا جا سکا۔ یہ اختلافات آج بھی جاری ہیں بلکہ پروٹسٹنٹ لوگ کاتھولکوں کو مسیحی ہی نہیں مانتے اور اُن کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگ تو ہیں ہی دوزخی۔ سیدھے آگ میں جلیں گے۔ اب تک ان اختلافات میں ہزاروں لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔

ذیلی شاخیں

ترمیم

پروٹسٹنٹ مسیحیت میں بھی کچھ ذیلی فرقے ہیں

 
پروٹسٹنٹ مسیحیت کی اہم شاخوں کا تاریخی چارٹ۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "jمذاہب عالم پروگرام:ماڈیول 1:صفحہ72"۔ 20 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2013 
  2. "jمذاہب عالم پروگرام:ماڈیول 1:صفحہ60"۔ 20 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2013