مندرجات کا رخ کریں

"سورہ فاتحہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Bot: Fixing redirects
م r2.7.1) (روبالہ جمع: ky:Фатиха сүрөсү
سطر 80: سطر 80:
[[kk:Әл-Фатиха сүресі]]
[[kk:Әл-Фатиха сүресі]]
[[ku:Fatihe]]
[[ku:Fatihe]]
[[ky:Фатиха сүрөсү]]
[[la:Al-Fatiha]]
[[la:Al-Fatiha]]
[[lt:Al Fatiha]]
[[lt:Al Fatiha]]

نسخہ بمطابق 12:03، 11 دسمبر 2012ء

فاتحہ
الفاتحۃ
فاتحہ
دور نزولمکی
نام کے معنیآغاز، افتتاح
دیگر نامام الکتاب، ام القرآن، کلید
زمانۂ نزولنبوت کے ابتدائی سال
اعداد و شمار
عددِ سورت1
عددِ پارہ1
تعداد آیات7
سجودکوئی نہیں
الفاظ29
حروف139
گذشتہ 
آئندہالبقرہ

سورۂ فاتحہ قرآن مجید میں ترتیب کے لحاظ سے پہلی سورت ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے مکی دور میں نازل ہوئی۔ اس کی آیات کی تعداد 7 ہے۔ یہ انتہائی اہم سورت اور ہر نماز میں پڑھی جاتی ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

نام

اس کا نام "الفاتحہ" اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے۔ فاتحہ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کا افتتاح ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ یہ نام "دیباچہ" اور آغازِ کلام کا ہم معنی ہے۔ اسے ام الکتاب اور ام القرآن بھی کہا جاتا ہے۔

زمانۂ نزول

یہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بالکل ابتدائی زمانے کی سورت ہے۔ بلکہ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی مکمل سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی وہ یہی ہے۔ اس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جو سورۂ علق، سورۂ مزمل اور سورۂ مدثر وغیرہ میں شامل ہیں۔

مضمون

دراصل یہ سورت ایک دعا ہے جو خدا نے ہر انسان کو سکھائی ہے جو اس کتاب کا مطالعہ شروع کررہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خداوند عالم سے یہ دعا کرو۔ انسان فطرتاً اسی چیز کی دعا کرتا ہے جس کی طلب اور خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے اور اسی صورت میں کرتا ہے جبکہ اسے یہ احساس ہو کہ اس کی مطلوب چیز اس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دعا کررہا ہے۔ پس قرآن کی ابتدا میں اس دعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہ راست کی جستجو کے لئے پڑھے، طالبِ حق کی ذہنیت لے کر پڑھے اور یہ جان لے کہ علم کا سرچشمہ خداوندِ عالم ہے، اس لئے اسی سے رہنمائی کی درخواست کرکے پڑھنے کا آغاز کرے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے بعد یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورۂ فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمے کا سا نہیں بلکہ دعا اور جوابِ دعا کا سا ہے۔ سورۂ فاتحہ ایک دعا ہے بندے کی جانب سے، اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار! میری رہنمائی کر۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی درخواست تونے سے مجھ سے کی تھی۔

الفاتحہ

  1. بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِِ
  2. اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ
  3. الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
  4. مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ
  5. إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
  6. أِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
  7. صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّينَ

ترجمہ

  1. اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے
  2. سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے
  3. نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے
  4. روز جزا کا مالک ہے
  5. (اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں
  6. ہمیں سیدھا راستہ دکھا
  7. ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا